معروف خطّاط اور فنِ تزئین کے ماہر
عبدالرّشید شاہد مرحوم کی یاد میں
از محمد راشد شیخ
دنیاوی زندگی میں ہمیں روزانہ مختلف انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ان میں سے کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جن سے پہلی ملاقات ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ آنے والےزمانے میں ہمارا اس انسان سے رابطہ رہے گا یا نہیں اور اگر رہے گا تو اس رابطے اور تعلق کی نوعیت کیاہوگی اور اس میں کتنی گہرای ہوگی۔ ان نئے ملنے والوں میں بعض انسانوں سے ایسا قوی تعلق ہو جاتا ہے کہ صرف اور صرف موت ہی اس تعلق کو منقطع کرپاتی ہے لیکن جانے والوں کی یادیں اور باتیں زندگی بھر حافظے کی لوح پر تازہ رہتی ہیں۔ راقم الحروف کی زندگی میں عبدالرشید شاہد مرحوم( مختصراً رشید صاحب )کی شخصیت ایک ایسی ہی شخصیت تھی جن سے آج سے تقریبا 35 برس قبل اوّلین ملاقات ہوئی تو اس بات کا شائبہ تک نہیں تھا کہ آنے والے برسوں میں ان کی شفقت ،محبت ،تعلقِ خاطر اور مہارتِ فن کی بنا پر ہمارے تعلقات کس قدر مضبوط ہو جائیں گے ۔ ان سے اوّلین ملاقات کی یادیں اب تک حافظے میں محفوظ ہیں۔ ان دنوں راقم ہر ہفتے ہفت روزہ تکبیرکراچی ایک لائبریری سے حاصل کر کے مطالعہ کرتا تھا۔ ان میں مضامین ،کالم(خصوصاً مشفق خواجہ کا کالم ’ خامہ بگوش کے قلم سے‘)اور رپورٹوں کے علاوہ اس کا خوبصورت ٹائٹل ،اندرونی سرخیاں اور لے آؤٹ خوبصورت اور پرکشش ہوتا تھا۔انھی دنوں ایک روز دورانِ ملاقات رشید صاحب کےقریبی عزیز ملک مختار صاحب (جو اس زمانے میں پی آئی اے میں ملازم تھے اور خطاطی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے) نے مطلع فرمایا کہ تکبیر کا ٹائٹل اور سرخیاں رشید شاہد صاحب لکھتے ہیں اور ان کا قیام ڈرگ روڈ کراچی میں ہے اور وہ ان سے ملاقات کرا سکتے ہیں۔فنِ خطاطی سے طالب علمانہ تعلق کی بنا پر یہ اطلاع راقم کے لیے بڑی خوش کُن تھی چنانچہ اگلے روز بعد مغرب ہم رشید صاحب کے گھر پہنچے۔ اس زمانے میں رشید صاحب ڈرگ روڈ کی ایک سادہ سی گلی میں اوپر کی منزل میں مقیم تھے، بعد میں انھوں نے اپنی محنت سے اولڈ اقبال آباد،ڈرگ روڈ میں ذاتی مکان بنا لیا تھا۔ راقم نے اوّلین ملاقات میں ہی اندازہ لگا لیا کہ رشید صاحب ان لوگوں میں شامل ہیں جو ابتدا میں بے تکلف نہیں ہوتے بلکہ ذرا فاصلے سے رہتے ہیں ،دوسری بات یہ نوٹ کی کہ وہ ہر بات سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور ان کی ہر بات میں وزن ہوتا ہے یعنی ہلکی اور غیر سنجیدہ گفتگو سے پرہیز کرتے ہیں، تیسری بات یہ نوٹ کی کہ ان کی شخصیت رعب دار ہے یعنی ان سے مل کر ان کا مخاطب مرعوب ہو جاتا ہے ۔اس اوّلین ملاقات کے دوران راقم نے اپنا تعارف کراتے ہوئے جب فنِ خطاطی سے تعلق کا ذکر کیا تو انہوں نے مسرت کا اظہار کیا، بعد ازاں چائے بسکٹ سے تواضع کی۔ اس اولین ملاقات کی ایک بات اب تک بخوبی یاد ہے وہ یہ کہ جب راقم نے تکبیر کے ٹائٹل کی تعریف کی اور ان سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ جب تکبیر کا ٹائٹل بنائیں تو یہ کام کرتے ہوئے میںدیکھوں ؟یہ سن کر انہوں نے قدرے خاموشی اختیار کی اور جواباً کہا ’’میں تکبیر کا ٹائٹل آدھی رات کے بعد اٹھ کر اس وقت بناتا ہوں جب ذہن بالکل تازہ دم اور مکمل خاموشی طاری ہوتی ہے، اس وقت میری بیوی کو بھی اجازت نہیں ہوتی کہ میرے کمرے میں آئے اور یکسوئی میں خلل انداز ہو، ایسی صورت میں میں کسی اور کو کیسے اجازت دے سکتا ہوں۔‘‘ یہ جواب سن کر راقم سمجھ گیا اور مزید اصرار مناسب نہ سمجھا۔اس اولین ملاقات کے بعد راقم ملازمتی مصروفیات کی بنا پر زیادہ تر بیرونِ کراچی مقیم رہا اور رشید صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔ 1996میں راقم نے اولین تالیف’ تذکرہ خطاطین ‘کا ابتدائی مسودہ تیار کیا اور اس کتاب کی طباعت کے لیے کئی حضرات اور اداروں سے رابطہ کیا بالآخر فضلی سنز کے طارق رحمان فضلی صاحب نے مناسب شرائط پر کتاب کی اشاعت پر آمادگی ظاہر کی۔ کتاب کی کمپوزنگ کا ابتدائی کام انہی کے دفترواقع اردو بازار کراچی میں ہوا لیکن اس راہ میں بہت سی رکاوٹیں ابھی باقی تھیں جن کا حل تلاش کرنا ضروری تھا۔ ایک روز خیال آیا کہ اس بارے میں رشید شاہد صاحب سے بھی مشورہ کیا جائے چنانچہ اسی شام راقم ان کے دفتر نامکو سینٹر،کیمبل اسٹریٹ پہنچ گیا۔ رشید صاحب اپنے کام میں شدید مصروف تھے اس لیے انہوں نے فرمایا کہ میں فون کر کے ان کے گھر اولڈ اقبال آباد ڈرگ روڈ آ جائوں اور وہیں اطمینان سے بات ہوگی۔ اگلے روز راقم ان کے گھر پہنچا اور کتاب سے متعلق چیزیں دکھائیں۔ انہوں نے اولین ملاقات میں یہ دریافت کیا کہ کتاب میں کاغذ کون سا استعمال ہوگا اور کہاں چھپے گی ؟جب کاغذ اور مطبع کا علم ہوا تو انہوں نے کسی قدر آمادگی کا اظہار کیا۔بعد میں ان سے ملاقاتوں میں یہ راز کھلا کہ اعلیٰ معیار کی فنّی کتب کے لیے بہترین کاغذ اور اعلیٰ طباعت کا اہتمام ضروری ہے ورنہ کتاب کے تزئین کار Layout Expertکی ساری محنت ضائع ہو سکتی ہے۔راقم اس ملاقات سےقبل انہیں صرف خطاط سمجھتا تھا اور اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ فن خطاطی میں ہی نہیں بلکہ فن تزئین یا لےآؤٹ Layout کے کتنے بڑے ماہر ہیں اور کسی بھی کتاب، رسالے یا اخبار کو جاذبِ نظر اور خوبصورت بنانے کے لیے لے آؤٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ یہ راقم کی خوش قسمتی تھی کہ سخت عدیم الفرصتی کے باوجود رشید صاحب نے تذکرہ خطاطین کا لے آؤٹ بنانے اور سرخیاں لکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ رشید صاحب کا فنِ خطاطی سے قدیمی تعلق تھا اور وہ اس بات کے خواہش مند بھی تھے کہ فنِ خطاطی پر معیاری اور عالمی معیار کی کتابیں پاکستان سے بھی اسی طرح شائع ہوں جس طرح ترکی،عالم ِعرب اور ایران وغیرہ سے شائع ہوتی ہیں ۔اس کے بعد سے راقم ایک سال سے زائد عرصے تک رشید صاحب کی معیّت میں وقتاً فوقتاً کتاب کے لے آؤٹ کی تکمیل کی خاطر مصروفِ کار رہا۔ راقم کوان ملاقاتوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہواکہ نہ صرف لے آؤٹ کے فن کے بارے میں بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا بلکہ یہ علم بھی ہوا کہ رشید شاہد صاحب ہر کام بہت سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے بعد کرتے ہیں اور اپنا کام اس قدر انہماک ،تن دہی اور معیاری انداز سے کرتے ہیں کہ بے اختیار علامہ اقبال کا مصرع یاد آ جاتا:
معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
دوسرے الفاظ میں وہ خطاطی اور لے آؤٹ کے کام اس طرح کرتے تھے کہ ایک معجزہ فن وجود میں لے آتے اورجس سے اچھاکام کرنا ان کے ہم عصروں میںکسی اور کے لیے ممکن نہ ہوتا۔ ان ملاقاتوں کے دوران فن خطاطی، خطاطوں، ادیبوں، شعرا ،اہلِ فن کے حوالے سے ہماری گفتگو ہوتی جن سے راقم کی معلومات میں اضافہ ہوا ۔خوب یاد ہے کہ کتاب کے لے آؤٹ کی خاطر رشید شاہد صاحب ایک ایک صفحے پر اس قدر محنت کرتے کہ متعدد بار دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ یہ صفحہ جلد از جلد مکمل ہو اور ہم اگلے صفحے کو تیار کریں ۔ ابتدا میں ہی رشید صاحب نے مطلع کیا تھا کہ اس کتاب میں زیادہ تر صفحات بلیک اینڈ وائٹ Black and White ہوں گے، رنگین صفحات میں چار کلر 4 Colorاور دو کلر2 Color بھی ہوں گے لیکن کتاب کا مجموعی حسن متاثر نہیں ہوگا۔ رنگین صفحات کم رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رنگین صفحات کی وجہ سے اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں جبکہ رشید صاحب چاہتے تھے کہ اخراجات کم ہوں اور کتاب بھی خوبصورت تیار ہو۔ رشید صاحب کو کام کرتے دیکھنا زندگی کا نہ صرف اہم تجربہ رہا بلکہ سیکھنے کے لحاظ سے بھی یہ زمانہ بہت مفید ثابت ہوا ۔کتاب میں عالمِ اسلام کے کل 20 خطاطوں کے حالات، خدمات اور دو سو پچاس سے زائد نوادرِ خطاطی پیش کیے گئے تھے۔رشید صاحب نے کتاب کے متن Textکے لیے ذرا جلی فونٹ اختیار کیا ، نوادرِ خطاطی کے کیپشنزCaptions کے لیے اس سے ذرا خفی اور حواشی و حوالہ جات کے لیے اس سے بھی خفی فونٹ کا انتخاب کیا تھا۔حواشی کے لیے رشید صاحب نے بالکل نیا انداز اختیار کیا یعنی حواشی صفحے کے نیچے نہیں بلکہ جس مقام کا حاشیہ دینا ہو وہ اس مقام کے بالکل سامنے قاری کو نظر آئے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قاری کی نظر باربار نیچے نہیں جاتی بلکہ ایک ہی لیول پر رہتی ہے۔ انھوں نےہر خطاط کی نمونوں کے لیے رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ صفحات رکھے رنگین صفحات کے لیے رنگوں کا انتخاب بڑی عمدگی سے کیا، اس مقصد کی خاطر انہوں نے ترکی ،ایران و عرب ممالک کی خطاطی پر معیاری کتب بغور دیکھیں اور رنگوں کا فیصلہ کیا۔ان کتابوں میں خطاطی کے نمونوں کے لیے جو رنگ استعمال کیے گئے تھے بالکل وہی رنگ کیسے طبع ہوں گے،اس مقصد کی خاطر رشید صاحب نے امریکہ کی مطبوعہ ایک کتاب سے استفادہ کیا۔ اسی زمانے میں راقم کوعلم ہوا کہ پہلے سے مطبوعہ رنگ کو اگر دوبارہ کسی اور جگہ طبع کرنا ہو تو اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جاتاہے۔ بلیک اینڈ وائٹ صفحات کے لیے ایک ایک صفحہ اس عمدگی سے ڈیزائن کیا کہ جس نے بھی کتاب دیکھی اسے پسند کیا۔ کتاب میں شمولیت کی خاطر خطاطی کے نمونوں کی پیشکش کے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ نمونے کا مناسب ترین سائز کیا ہوگا اور یہ نمونہ رنگین چھاپا جاے،سادہ چھاپا جائے یا ریورس چھاپا جائے ،کس نمونے کے گرد بیل لگائی جائے اور کس نمونے کے گرد اسکرین رکھی جائے ،یہ ساری چیزیں تحریر میں لانا مشکل ہیں اور جب تک انسان اس تجربے سے نہ گزرے تما م تفصیلات سمجھانا مشکل ہے۔بس یوں سمجھیے کہ رشید صاحب ہر صفحے کو اور ٹائٹل و اندرونی ٹائٹل وغیرہ کو اتنا خوبصورت بنا دیتے کہ شاید اس سے زائد ممکن نہ ہوتا۔جب کتاب طبع ہوئی اور ابتدائی نسخے ملے تو راقم سب سے پہلے رشید شاہد صاحب کی خدمت میں نامکو سینٹر پہنچا، پوری کتاب صفہ وار دیکھ کر انہوں نے راقم سے پوچھا کیا آپ اب خوش ہیں؟ راقم نے جواب دیا: بالکل، میں کتاب کی تکمیل سے بہت خوش ہوں۔یہ سن کررشید صاحب نے جو کہا وہ اب تک بخوبی یاد ہےانہوں نے فرمایا: کتاب خوبصورت چھپی ہے لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز چھپ جاتی ہے تو اسے دیکھ کر ذہن میں یہی آتا ہے کہ اسے مزید خوبصورت بنا سکتا تھا۔ اس قدر محنت کے باوجود یہ سوچ رشید صاحب کی تکمیل پسندانہ طبیعت یعنی Perfectionistہونے کو ظاہرکرتی ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا،دورانِ ملاقات رشید صاحب سے جن موضوعات پر گفتگو ہوتی ان میں خطاطی اور اس سے زیادہ فنِ تزئین یا لے آؤٹ کے مختلف پہلوؤں اور رنگوں کے درست اور غلط استعمال شامل تھے۔رشید صاحب رنگوں کا استعمال بھی بڑی احتیاط اورسوچ سمجھ کر کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ٹائٹل پر اگر ایک رنگ بھی غلط لگ جائے تو یہ رنگ زہر بن جاتا ہے اور پورے ٹائٹل کو خراب کر دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رشید صاحب کا آبائی تعلق فن خطاطی سے تھا اور وہ نستعلیق، نسخ، کوفی اور رقعہ میں بڑی مہارت سے خطاطی کرتے تھے اس کے علاوہ انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئےاخباری سرخیوں کے لیے کوفی کی ایک خاص قسم ایجاد کی تھی جس میں کسی بھی عبارت کو نہایت آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے۔ ان روایتی خطوط کے علاوہ رشید صاحب نے سرخیاں اورذیلی سرخیاں لکھنے میں انفرادیت یوں پیدا کی کہ عالمِ عرب کے معیاری اور خوبصورت رسائل میں شائع شدہ سرخیاں دیکھ کر ان میں کمال حاصل کیا ایسی سرخیوں کو رشید صاحب ’اسٹائلش سرخیاں‘ کہتے تھے۔ ان کے علاوہ اسلم کمال کا خطِ کمال اور ظہور ناظم کا ایجاد کردہ خط (جس میں گولائیاں زیادہ ہوتی ہیں) لکھنے میں بھی مہارت حاصل تھی ۔سرخیوں کی کتابت کے حوالے سےرشید صاحب نے یہ کمال بھی حاصل کیا تھا کہ الفاظ کو اس طرح لکھا جائے کہ اس لفظ کی صوتی تصویر بن جاے مثلاً ایک سرخی میں لفظ سمندر لکھنا تھا ،اسے انھوں نے اس انداز سے لکھا کہ لفظ سمندر میں پانی کی لہریں نظر آرہی تھیں ،اسی طرح ایک بار معروف آرٹسٹ گل جی کا نام انھوں نے اس انداز سے لکھا کہ قاری کو یوں نظر آتا جیسے بہت سے پھول مل کر لفظ’ گل جی ‘بنا رہے ہوں۔ یہ نام جب گل جی نے دیکھا تو اس قدر پسند کیا کہ رشید صاحب کے دفتر آ کر انھیں مبارک باد دی۔رشید صاحب کےبزرگوں کا بھی فن خطاطی و کتابت سے گہرا تعلق رہا۔ان کے سسر محمد یوسف کیلانی مرحوم اپنے عہد کے معروف خطاط تھے اور جب تفہیم القران کے ترجمے اور حواشی کی کتابت کا مرحلہ آیا تو مولانا مودودی نے محمد یوسف صاحب کا انتخاب کیا تھا۔ تفہیم القران کی چھ جلدوں کا مکمل ترجمہ اور جلد اوّل اور جلد چہارم کے مکمل حواشی کی خوبصورت کتابت محمد یوسف کیلانی مرحوم کے خوبصورت خط میں ہے۔
جہاں تک لے آؤٹ یا فنِ تزئین کا تعلق ہے یہ فن رشید صاحب نے بڑی محنت سےاپنے استاد شریف گلزار مرحوم( وفات 21 مارچ 1997 )کی رہنمائی میں سیکھا تھا۔ رشید صاحب سے ملاقات سے قبل راقم کے علم میں نہیں تھا کہ کسی بھی مطبوعہ چیز کے لیے لے آؤٹ کی کیا اہمیت ہوتی ہے لیکن رشیدصاحب سے مسلسل مصاحبت اور مکالمت سے اندازہ ہوا کہ خوبصورت لے آؤٹ طبع شدہ چیز کو اضافی اخراجات کے بغیر زمین سے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ راقم کی دلی خواہش تھی کہ اس اہم فن پر رشید صاحب کوئی رہنما کتاب لکھ دیں تاکہ آنے والی نسلوں کو رہنمائی حاصل ہو۔ اس مقصد کے لیے راقم نے اس موضوع پر N.N.Sarkar کی لکھی دو کتابیں(مطبوعہ دہلی) بھی فراہم کی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ کتب انگریزی رسائل اور جرائد کے لے آؤٹ کے لیے رہنمائی کر سکتی ہیں جبکہ اردو لے آؤٹ بالکل علیحدہ چیز ہے۔ راقم کے مسلسل اصرار پر انہوں نے لاہور میں مقیم اپنے استاد بھائی حبیب الرحمن صاحب سے اس کام کی خاطر رابطہ کیا تھا لیکن افسوس یہ کام آگے نہ بڑھ سکااور رشید صاحب اس کتاب پر کام نہ کر سکے۔ اب ہمارے موجودہ معاشرے میں کوئی اور ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جو اس قسم کی کتاب لکھ سکے۔رشید صاحب تمام عمر اپنےاستاد کے احسان مند رہے بلکہ اپنے استاد کے نام اور کام کی حفاظت کی خاطر انھوں نے ’’خطاطی کا شاہجہاں‘‘ نامی کتاب مرتب کی اور اپنے ذاتی خرچے سے اس کی عمدہ طباعت کا انتظام کیا۔ اس کتاب کی تکمیل کی خاطر انہوں نے لاہور کا سفر بھی کیا جس میں راقم کو بھی شریکِ سفر کیا۔ لاہور میں کئی روز ہم نے شریف گلزار صاحب کے شاگردوں سے مختلف اداروں میں طویل ملاقاتیں کیں جن سے متعدد نے رشید صاحب کی فرمائش پر گلزار صاحب سے متعلق اپنی یاداشتوں پر مشتمل مضامین لکھے جو شاملِ کتاب ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا رشید صاحب سے ہماری پہلی ملاقات میں انھوں نے ذرا خشک انداز اختیار کیا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ، ان کی بے تکلفی اور تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا گیا اور یوں انگریزی کا یہ محارہ غلط ثابت ہوا:
First Impression is the last impression
کئی بار ایسا ہوتا کہ وہ کسی کتاب، مصنف ، شعریا مضمون کے بارے میں دریافت کرتے اور راقم اپنے محدود علم کے مطابق آگاہ کرتا مثلاً ایک بار دورانِ ملاقات انھوں نے مولانا حالی کے اس مصرع کے معنی دریافت کیے:
عفونت میں سنڈاسـ سے ہے جو بد تر
اس کے علاوہ متعدد بار رشید صاحب اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات بھی سناتے جن میں سے دو اب تک یاد ہیں۔پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ان کی زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا جب وہ روزانہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے محنت کرتے اور دو یا تین نوکریاں کرتے تھے ۔اس شدید محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ بیمار پڑگئے،کئی معالجوں سے رابطہ کیا لیکن کسی کے علاج سے فائدہ نہیں ہوا۔بالآخر ایک بزرگ اور ماہر ڈاکٹر کے پاس پہنچے جنھوں نے ابتدا میں ساری معلومات حاصل کیں اور پھر ایک عجیب علاج بتایا۔انھوں نے رشید صاحب سے فرمایا کہ آپ کا علاج دوائوں سے نہیں ہوگا،آپ کو ایک ماہ کے لیے اپنے اس گائوں میں جاکر آرام کرنا ہوگا جو آپ کی جائے پیدائش ہے۔ان کے مشورے کے مطابق رشید صاحب اپنے گائوں چلے گئے اور ایک ماہ کے دوران ان کی طبیعت بالکل ٹھیک ہو گئی اور واپس آکر کراچی میں حسبِ سابق اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسلسل بیٹھ کر کام کرنے سے ان کا وزن بہت بڑھ گیا۔وہ گوجرانوالہ میں ایک بزرگ حکیم صاحب کے پاس پہنچے تاکہ وزن کم کرنےکے سلسلے میں ان سے مشورہ کیا جائے۔حکیم صاحب نے مکمل تشخیص کے بعد فرمایا کہ علاج تو موجود ہے لیکن صبر سے کرنا ہوگا؟ جب رشید صاحب نے حامی بھری تو حکیم صاحب نے چند پڑیاں دیں جن میں سفوف تھے اور کہا کہ کھانے میں صرف بکری کے گوشت کا شوربا چپاتی سے کھانا ہوگا اور روزانہ ایک پڑیا پانی سے پھانکنی ہوگی ۔ایک ماہ کے علاج کے بعد رشید صاحب کا وزن بہت کم ہو گیا لیکن اب مسئلہ یہ ہوگیا کہ سارے کپڑے اتنے ڈھیلے ہوگئے کہ یوں لگتا تھا کہ یہ کسی اور کے کپڑے ہیں۔
جہاں تک رشید صاحب کی فنی زندگی کا تعلق ہے،انھوںنے خطاطی کا اغاز 1962 میں روزنامہ آفاق لاہور سے بحیثیت کاتب کیا تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ روزنامہ کوہستان میں چلے گئے جس کے ایڈیٹرمعروف اسلامی ناول نگار نسیم حجازی اور پروڈکشن انچارج شریف گلزار مرحوم تھے۔ شریف گلزار خطاطی میں احمد حسین سہیل رقم کے شاگرد تھے جو خطاطِ مشرق اور کاتبِ کلام اقبال عبدالمجید پرویں رقم کے شاگرد تھے ۔لے آؤٹ کے فن میں شریف گلزار مرحوم نے لندن سے ڈپلوما حاصل کیا تھا اس کے بعد اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال سے اخبارات و رسائل کے لے آوٹ میں مزید خوبصورت اصلاحات کی تھیں۔ 1963 میں روزنامہ کوہستان سے عنایت اللہ اور شریف گلزار علیحدہ ہو گئے اور لاہور سے روزنامہ مشرق کا اجرا کیا ، یوں رشید صاحب بھی کوہستان سے مشرق میں آگئے۔ 1965 میں روزنامہ مشرق کراچی ایڈیشن کا آغاز ہوا ساتھ ہی ہفت روزہ اخبارِ خواتین بھی شائع ہونا شروع ہوا۔اس مقصد کی خاطر شریف گلزار اپنی پوری ٹیم کے ساتھ کراچی آگئے چنانچہ رشید صاحب بھی لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے اور انہیں شریف گلزار صاحب کی بھرپور توجہ اور رہنمائی حاصل ہو گئی۔ چند برس بعد شریف گلزار لاہور منتقل ہو گئے جبکہ رشید صاحب نے کراچی کو ہی اپنا مستقر بنا لیا اور اپنی محنت ،خوبصورت اور معیاری کام سے کراچی میں وہ مقام حاصل کر لیا کہ اپنے مخصوص فن میں کراچی تو کیا پورے پاکستان میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ کراچی میں قیام کے باوجود شریف گلزار صاحب سے رشید صاحب نے تعلق اور راہنمائی کا سلسلہ برابر جاری رکھا انہوں نے متعدد بار راقم سے فرمایا کہ کراچی میں وہ لے آؤٹ یا کتابت کا جو کام بھی کرتے تھے وقتاً فوقتاً پیکٹ بنا کر یہ اشیا اپنے استاد گلزار صاحب کو پوسٹ کرتے رہتے تھے۔ جب رشید صاحب لاہور جاتے تو اپنے استاد سے ملا قات کی خاطر پورا دن ان کے ساتھ گزارتے۔ان ملاقاتوں کے دوران گلزار صاحب ایک ایک چیز کے بارے میں اپنی قیمتی رائے اور مشورے دیتے اور جہاں ضرورت ہوتی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی کام لیتے۔ رشید صاحب نے فرمایا تھا کہ گلزار صاحب ذرا تیز مزاج استاد تھے اور ان کی شاگردی اختیار کرنا آسان کام نہیں تھا،وہ لاہور کے شاگردوں کے آگے رشید صاحب کی بلند الفاظ میں تعریف کرتے اور کہتے: دیکھو، رشید کتنا آگے پہنچ گیا ہےاور تم جہاں پہلے تھے ابھی تک وہیں ہو۔ شریف گلزار مرحوم کو رشید صاحب کبھی نہ بھولے اور وہ اکثران کے واقعات بیان کرتے تھے نیز یہ بھی کہ گلزار صاحب علامہ اقبال کا یہ مصرعہ اکثر دہراتے تھے:
تو شبـ آفریدی چراغ آفریدم
یعنی اے اللہ، تو نے رات پیدا کی اور میں نے چراغ بنایا جس سے رات کی تاریکی دور ہو گئی اور یہ روشن ہوگئی۔ ایک موقع پر رشید صاحب نے فرمایا تھا کہ گلزار صاحب کی یہ تربیت برابرجاری رہی یہاں تک کہ جب رشید صاحب نے سیّد محمد جعفری کے مجموعہ کلام ’’شوخی ِتحریر‘‘ کی مکمل کتابت کی اور اسے منفرد سائز اور خوبصورت انداز میں شائع کرایاتو اس کتاب کا ایک نسخہ حسب عادت اپنے استاد گلزار صاحب کو لاہور بھیجا۔ جب رشید صاحب لاہور گئے اور استاد سے ملاقات کی تو گلزار صاحب نے فرمایا کہ اس کتاب کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تم اب میرے مطلوبہ معیار تک تم پہنچ چکے ہو، اب مجھ سے مزید فنی تربیت کی ضرورت نہیں۔ رشید صاحب فرماتے تھے کہ گلزار صاحب کا معیار اس قدر بلند تھا کہ ان کی شاگردی حاصل کرنا آسان نہ تھا ،اس پر رشید صاحب کی مسلسل محنت اور لگن اور ترقی سے اس مقام تک پہنچنا اور گلزار صاحب کا یہ کہنا معمولی بات نہیں تھی۔شاید ہی گلزار صاحب کے کسی شاگرد یا کسی ماتحت کو یہ اعزاز حاصل دیا ہو۔
جہاں تک رشید صاحب کی خطاطی اور تزئین یا لے آؤٹ کا کاموں کا تعلق ہے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ایک مضمون میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، یہاں ان ہم ان کے خاص خاص اور معروف کاموں کا ذکر کرتے ہیں ۔ْ
۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی کا ٹائٹل اور اندرونی سرخیوں کا کام کا آغاز 1981 سے کیا۔ رشید صاحب نے اس کے ٹائٹل اور سرخیوں کا معیار اس قدر بلند کر دیا کہ ایک موقع پر مدیر تکبیر محمد صلاح الدین شہید نے فرمایا تھا کہ تکبیر کا ٹائٹل اتنا اچھا اور معیاری ہو سکتا ہے، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔رشید صاحب نے تکبیر کے لیے تقریباً 30 برس تک کام کیا۔
1996 میں روزنامہ امّت اور ہفت روزہ غازی کا آغاز ہوا جس کی سرخیاں اور مکمل لے آؤٹ کا کام رشید صاحب نے کیا اور بہت خوبصورت کام کیا۔
روزنامہ مشرق کراچی اور ہفت روزہ اخبارِ خواتین کے لیے خوبصورت سرخیاں اور مکمل لے آؤٹ کا کام 1965 سے لے کر 1991 تک کیا ،اخبار خواتین کے لیےسرخیوں کی خطاطی میں رشید صاحب نے نئے نئے انداز سے خطاطی کی جسے بے حد پسند کیا گیا۔ معروف آرٹسٹ گل جی کے نام کی سرخی کا واقعہ اسی دور سے متعلق ہے۔
ماہنامہ سب رنگ ڈائجسٹ کراچی کا آغاز 1970 سے ہوا۔ اس کے مدیر شکیل عادل زادہ نے ابتدا سے ہی رشید صاحب کو اپنی ٹیم کا رکن بنایا یہاں رشید صاحب کی ذمہ داریوں میں: فہرست، ذاتی صفحہ، اداریہ اور ہر کہانی کے ابتدائی نوٹ کی کتابت تھیں۔ یہاں بھی رشید صاحب نے بے حد خوبصورت انداز میں کتابت اور سرخی نویسی کا کام کیا اور سب رنگ کو خوبصورت اندازعطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کا ذاتی صفحہ نہایت ہی باریک کتابت میں ایک ہی صفحے پر بہت زیادہ مواد پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کی رشید صاحب اس قدر محنت سے کتابت کرتے تھے کہ اس ایک صفحے کی کتابت میں تقریبا ایک ہفتہ صرف ہوتا۔ ابتدا میں ماہنامہ سب رنگ ڈائجسٹ کی لو ح کی خطاطی ایک اور صاحب نے کی تھی جس کے معیار سے رشید صاحب مطمئن نہیں تھے چنانچہ انہوں نے لاہور جا کر اس عہد کے نامور خطاط حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم سے اس کی خوبصورت خطاطی کرائی جو ہمیشہ ٹائٹل پر شائع کی گئی۔ رشید صاحب کے پاس اس خطاطی کی اصل لوح محفوظ تھی جس سے راقم نے بھی ایک فوٹو کاپی کرائی تھی۔
معروف شاعر شبنم رومانی نے جب سہ ماہی اقدار کراچی شائع کرنے کا ارادہ کیا تو یہ شرط عائد کی کہ اگر رشید صاحب پرچے کے لے آؤٹ، ٹائٹل اور اندرونی سرخیوں کی کتابت کریں گے تب ہی پرچے کا آغاز کریں گے ورنہ نہیں۔ان کے مسلسل اصرار پر رشید صاحب صاحب نے اس کام کی خاطر رضا مندی کا اظہار کیا اور اقدار کا سائز وہ رکھا جو دیگر پرچوں میں بالکل منفرد نظر آتا تھا۔اقدار سہ ماہی ادبی پرچہ تھا اور جب تک شائع ہوا مذکورہ بالا کام رشید صاحب ہی کرتے رہے۔ اقدار کے ٹائٹل لے آؤٹ اور اندرونی سرخیوں کو قارئین نے بے حد پسند کیا ،دیگر قارئین کے علاوہ اردو کے معروف محقق گوپی چند نارنگ نے بھی ایک خط میں اقدار کی خاطر رشید صاحب کے کام پر پسندیدگی کا اظہارکیا تھا۔
رشید صاحب نے جن کتابوں کی خوبصورت کتابت کی اور انہیں خوبصورت انداز سے شائع کرایا ان میں چند یہ ہیں:
شوخیِ تحریر از سیّد محمد جعفری
بیت المقدس کی تلاش از کیف بنارسی
ہمزاد دا دکھ از طارق عزیز
ہوائے دشت از رسول احمد کلیمی
رحمت تمام از نامعلوم
دیگر فنون کے علاوہ رشید صاحب کتابوں کے خوبصورت ٹائٹل تیار کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے ادارۃ المعارف کراچی اور مکتبہ معارف القران دارالعلوم کراچی کی کتابوں کے تقریبا 15 برس تک اس قدر خوبصورت ٹائٹل تیار کیے کہ جس نے بھی دیکھا اور انہیں پسند کیا۔ ان میں سے متعدد کی خطاطی بھی انہوں نے خود کی تھی جبکہ بہت سے ٹا ئٹلوں کی خطاطی سیّدنفیس الحسینی شاہ صاحب کے خوبصورت خط میں ہے۔رشیدصاحب نے راقم سے متعدد مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی ٹائٹل کی خطاطی سید نفیس شاہ صاحب کے خط میں ہوتو وہ خود اس کی خطاطی نہیں کرتے تھے بلکہ شاہ صاحب کا ہی خط استعمال کرتے تھے ۔البتہ اس خطاطی کی خاطر رنگوں کا انتخاب خود کرتے تھے۔
رشید صاحب نے کئی عمارتوں پر بھی اپنی خطاطی کے لازوال نمونے چھوڑے جن میں اہم ترین آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی ہے۔ انہوں نے چار سال تک آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے لیے کام کیا جو آج بھی وہاں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے مونوگرام اور علامتی جملوں کی خطاطی بھی کی۔
ان کاموں کے علاوہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے مرکزی دروازے (مین گیٹ )کے دونوں جانب خطاطی کا جتنا بھی کام ہے وہ سب رشید صاحب ہی کے قلم سے ہے۔
رشید صاحب کی تصنیفات وتالیفات میں درج ذیل اہم ہیں:
قدم قدم سوئے حرم :سفر نامہ حج جس میں دینی جذبات کا بھرپور اظہار ہے۔
خطاطی کا شاہجہاں :اپنے استاد محترم شریف گلزار مرحوم کی یادوں اور خطاطی کے نمونوں پر مشتمل خصوصی خوبصورت کتاب
درج بالا دیگر مہارتوں کے باوصف رشید صاحب ایک کامیاب کالم نگار بھی تھے ۔روزنامہ امّت کراچی میں رشید صاحب برس ہا برس ’چراغ آفریدم‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے جس میں سادہ اور دل نشین انداز میں معاشرتی اصلاح و دیگر موضوعات پر کالم لکھے۔ انہی کالموں میں انہوں نے’کنویں والیاں‘ کے عنوان سے منفرد اور متاثر کن داستانیں لکھی تھیں۔ یہ موضوع بڑا دردناک ہے اور ایک اہم انسانی المیہ سے تعلق رکھتا ہے۔ کنویں والیاں دراصل ان بے بس مظلوم لڑکیوں کی داستانیں ہیں جنہیں 1947 میں مسلم کش فسادات میں اپنی عزت اور ناموس بچانے کی خاطر کنوئوں میں چھلانگ لگا کر جان دینی پڑی ۔ رشید صاحب نے ان مظلوم لڑکیوں کی داستانیں اس متاثر کن انداز میں لکھیں کہ جیسے وہ عالم برزخ سے ہم سے مخاطب ہوں اور ہر لڑکی اپنی مظلومیت کی داستان بیان کر رہی ہو۔ رشید صاحب کی خواہش تھی کہ کنویں والیاں کتابی شکل میں بھی شائع ہو جائے لیکن اب تک یہ تمام اقساط اخبار کی فائلوں میں محفوظ ہیں۔اس کے علاوہ قسط وار ناول”سونالی “ اور ” یک چشمِ گل “ بھی انھی کالموں کی شکل میں شائع ہوئے۔
۔ان تحریری خدمات کے علاوہ رشید صاحب نے ہفت روزہ غازی میں ماضی کے معروف خطاطوں کے حالات اور فنی خدمات پر ایک معلومات افزا سلسلہ مضامین بھی لکھا۔ اس سلسلے میں جن خطاطوں پر مضامین لکھے ان میں محمد یوسف دہلوی، عبدالمجید پرویں رقم ،حافظ محمد یوسف سدیدی، تاج الدین زریں رقم، محمد صدیق الماس رقم ، حاجی دین محمد اور مولانا عبدالرحمن کیلانی شامل ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہواراقم سطور رشید صاحب سے تعلقات کی مدت کو 35 برس گزر چکے ہیں۔ اس طویل مدت کے دوران نہ صرف ان سے طویل ملاقاتیں ہوئیں، انہیں کام کرتے بار بار دیکھا ان کے طریقہ کار سے آگاہی ہوئی ،لاہور کا یادگار سفر ان کی معیت میں کیا بلکہ بہت سے ذاتی معاملات میں بھی مشاورت کی اور ان کے حالاتِ زندگی سے بھی آگاہی ہوی۔ حقیقت یہ ہے کہ رشید صاحب ہمارے معاشرے کے ان صاحبانِ کردار میں شامل تھے جن کی پوری زندگی محنت و مشقت سے عبارت ہوتی ہے اور اپنی مسلسل محنت اور ذہانت سے وہ معاشرے میں اس بلند مقام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں دور دور تک ان جیسی مہارت کا حامل کوئی اور نظر نہیں آتا۔ جب تک ان کی صحت نے اجازت دی انہوں نے محنت و مشقت کی عادت ترک نہیں کی۔ انہوں نے اپنی محنت، مسلسل غور و فکر اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہر کام میں وہ بلند معیار پیش کیا کہ ایک مرتبہ جو اُن سے کام کراتا خصوصا ٹائٹل سازی اور لے آوٹ کے کام کتابوں کے کام یا اس طرح کے دیگر کام، وہ ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ ہو جاتا اور اسے کسی اور کاکام پسند نہیں آتا تھا۔ وہ زندگی بھر اس حدیث سے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا رہے:
اِنّ اللہ یُحبّ اِذا عَمِلَ عاملاً ان یُّتقِنَہُ
ترجمہ: اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ جب کوئی کام کرنے والا کسی کام کو انجام دے تو اسے بھرپور طریقے اور بہترین طریقے سے کرے۔
گزشتہ کئی برسوں سے خرابیِ صحت کی بنیاد پر رشید صاحب خانہ نشین ہو گئے تھے لیکن اس عالم میں بھی وہ احباب سے برابر بذریعہ فون تعلق رکھتے تھے۔ راقم الحروف کی خوش قسمتی تھی کہ وہ عاجز کو انہی احباب میں شامل سمجھتے تھے۔ اب ہماری ملاقاتیں مہینوں بعد ہوتیں۔ آخری ملاقات ان کے گھر گزشتہ موسم ِسرما میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے بڑی محبت ،شفقت اور مہمان نوازی کا برتاؤ کیا ۔دورانِ ملاقات انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس کو راقم نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا، انہوں نے فرمایا کہ صحت کی خرابی کی بنا پر وہ خانہ نشین ہو چکے ہیں اور کوئی کام نہیں کر رہے لیکن اس عالم میں بھی ان کا ذہن پہلےہی کی طرح کام کرتا ہے خصوصاً لے آؤٹ کے لحاظ سے خوب سے خوب تر کے خاکے ان کے ذہن میں آتے رہتے ہیں ۔ ضعیف العمری و خرابیِ صحت کے باوجود رشید صاحب کا اپنے کام سے لگن اور تعلق کا یہ عالم تھا۔
مورخہ 14 جون 2024 بروز جمعہ اطلاع ملی کہ رشید صاحب کا انتقال ہو گیا ۔ یہ اطلاع ملتے ہی یوں لگا جیسے ہم ایک شفیق، ہمدرد مہمان نواز اور بے مثال صلاحیتوں کے حامل ایک ایسے بزرگ سے محروم ہو گئے جس کا نعم البدل نہ ان کی زندگی میں کوئی اور تھا اور نہ کبھی آئندہ ہونے کی امید ہے۔ جس دن رشید صاحب کا انتقال ہوا ماہ ذی الحج کے پہلے عشرے کی چھ تاریخ تھی۔ راقم ان کی نماز جنازہ میں شریک ہوا تو بار بار یہ بات ذہن میں آرہی تھی کہ رشید صاحب نے جس ایمانداری، محنت، لگن اور خلوصِ نیّت سے زندگی گزاری ، بارگاہِ رب العزت میں ان کے حسنات قبولیت کا درجہ پا گئے اور انہیں عشرہ ذوالحج کی مبارک ساعتوں میں جمعۃ المبارک کے روز دنیا سے عقبہ کا سفر کرایا۔ ساتھ ہی مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر حافظے کی لو ح پر بار بار نمودار ہوا :
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کے دین ہے جسے پروردگار دے
رشید صاحب کا زندگی بھر حروف و الفاظ سے تعلق رہا ۔وہ ان باکمال انسانوں میں شامل تھے جو غالب کے الفاظ میں اگر اپنے بارے میں یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا:
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
یوں ضلع گجرات(پنجاب) کے ایک دور افتادہ گائوں (شادیوال)میں 1942 میں پیدا ہونے والے عبدالرشید شاہد مرحوم کا سفرِحیات 14 جون 2024 کو کراچی میں اختتام پذیر ہوا۔دعاہے اللہ تعالیٰ عبدالرشید شاہد مرحوم کواعلیٰ علییّن میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نیک نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین یا رب العالمین۔
(مطبوعہ روزنامہ امّت کراچی ۔ ۹،۱۱اگست ۲۰۲۴)