نصراللہ مہر صاحب 15 مارچ 1966 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔آپ نے میٹرک تک ابتدائی تعلیم حاصل کی۔(بقیہ حالات انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں )
فن کی ابتداء :
میٹرک کے بعد اورنگی ٹاؤن میں ایک دفترمیں بطور لائبریرین ملازمت کی،وہاں سے ’’اورنگی گزٹ‘‘ کے نام سے رسالہ شائع ہوتا تھا جس کی کتابت جناب اکرام الحق صاحب اسی دفتر میں کرتے تھے۔وہ خطِ دہلوی کے بہترین خطاط تھے،ان سے دوستی ہوئی اور انہیں کے کام سے متاثر ہو کر فیصلہ کر لیا کہ خطاطی ہی سیکھنی ہے،چنانچہ پہلے استاد اکرام الحق صاحب ہی تھے۔لیکن میں جلد ہی سرگودھا واپس آگیا۔ ایک سال تکـ سرگودھا کے استاد نصیر صاحب سے سبق لیا ، بعد ازاں واپس کراچی آکر ’’انداز ڈائجسٹ‘‘ میں اولاً کتابت شروع کی۔’انداز‘ بند ہو گیا تو ’اشارہ ‘ڈائجسٹ،سسپنس،جاسوسی،الجمہوریہ ،رابطہ ،وغیرہ میں کام کیا،چند دن عالمی ڈائجسٹ میں بھی کتابت کی۔’ رابطہ‘ میں ان کی ملاقات جناب اکرام الحق صاحب سے دوبارہ ہو گئی ۔وہ میری کامیابی پر بہت خوشـ ہوئے۔
اساتذہ:
اکرام الحق (کراچی ) ملک نواز احمد اعوان صاحب (کراچی ) استاد محترم ظہیر الدین ظہیر (سرگودھا)
جدوجہد:
کراچی میں میرا دورانیہ ۱۹۸۰ سے ۱۹۹۰ تک کاہے۔ اس دور میں سلیم احمد گجراتی صاحب نامور خطاط تھے ،اکثر ڈائجسٹوں کی فہرت سرخیاں وغیرہ وہی لکھتے تھے ، ان کے کام سے ہم نے بہت سیکھا۔پھر مجھے جناب ملک نواز احمد صاحب کے بارے میں معلوم ہوا تو طارق روڈ ان کی ورک شاپ پر جا پہنچا، ملک صاحب بہت سارے خطاطوں کے محسن ہیں،انکا گھر کتبِ خطاطی کا نایاب ذخیرہ اور دل خط و خطاطین کی محبت کا مرقع ہے۔ملک صاحب نے مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو خطی معیار اور اقدارِ خطاطین سے آگاہ کیا۔ یہیں میری اکلوتی ملاقات جنابـ شفیق الزمان صاحب سے بھی ہوئی ،اور چند ملاقاتیں خالد محمود صدیقی صاحب سے۔ اسی دوران میری شادی ہو گئی،تب سسپنس ڈائجسٹ وغیرہ نے پہلے پہل کمپوٹر کے خط سے استفادہ شروع کر دیا تھا۔
ہم واپس سرگودھا لوٹ آئے،یہاں مارکیٹ میں ہر طرح کاکام تھا لیکن الحمد للہ کہیں مشکل پیش نہیں آئی۔ میں سیدنا امیر معاویہ پریس پر کام کرتا تھا،پریس سے ایک ڈاکٹر صاحب کا مطب چھوڑ کر جناب ظہیر الدین ظہیر آرٹس کا گھر اور دکان تھی،ایک دن ظہیر صاحب خود ہی پریس پر تشریف لائے اور میرے لکھے پوسٹر کا معائنہ کرنے لگے،تعریف بھی کی اور مجھے اپنی دکان پر آنے کی دعوتـ بھی دی۔
یہیں سے جناب ظہیر صاحب سے تعلقات استوار ہوئے۔مجھے اعتراف ہے کہ جناب ملک نواز صاحب کے بعد جناب ظہیر صاحب سے میں نے بہت استفادہ کیا، سرگودھا کے تمام پینٹرز اور خطاط بھی ظہیر صاحب کو استاد کا درجہ دیتے تھے اور وہ حقیقتاً نستعلیق نویسی میں نہایت خوبصورت خط اور گہرے ادراک کے مالک تھے۔ ظہیر صاحب شاعر بھی تھے ، میرے شعری ذوق نے تعلقاتـ کو اور بھی مضبوط کر دیا۔ کئی دفعہ ظہیر صاحب اخبارات کی پیشانیاں لکھ کر مجھ سے آؤٹ لائن فنش کرواتے۔مقابلوں میں شرکت کا مجھے طبعاً کوئی شوق نہیں تھا،تاہم ظہیر صاحب ہی کی تحریک پر میں نے چند مقابلوں اور نمائشوں میں شرکت کی۔ ۱۹۹۸ میں کیلی گرافزز اینڈ آرٹسٹس گلڈ نے مجھے یوسف سدیدی ایوارڈ سے نوازا تو مجھ سے زیادہ ظہیر صاحب خوش تھے ۔ اسـ موقع پر انہوں نے میری خوب ذہن سازی کی …… کہ اب میں نے شادی کارڈ اور رسید بکیں نہیں لکھنی، ٹائٹل اور پوسٹر پر توجہ مرکوز کرنی ہے ،ہر کام دگنی توجہ سے کرنا ہےاور ریٹ بھی دگنے ہی لینے ہیں…… میں نے حسبِ ارشاد زیادہ محنت شروع کر دی اور پھر واقعی میرا کام کافی اچھا اور نام تھوڑا بلند ہو گیا۔ اس دور میں پنجاب بھرکے مدارس نے اچھے ریٹ پر مجھ سے کام کروایا۔ ’چلو چلو قندھار چلو‘ کے عنوان سے میرا ایکـ پوسٹر اتنا مقبول ہوا کہ ہفت روزہ ضربِ مومن نے اس کا عکس شائع کیا۔
فونٹ ڈویلپمینٹ کاآغاز:
جب کمپیوٹر ہمارا پیچھا کرتا ہوا سرگودھا تک پہنچ گیا تو اکثر کاتب فارغ ہو گئے لیکن الحمد للّٰہ ہمارا کام اسـ وقت تک تسلسل سے چلتا رہا جب تک ہم خود کمپیوٹر میں نہیں گھس گئے۔میں اس وقت تفسیر جواہر القرآن کی کتابت کر رہا تھا کہ اشرف قادری صاحب سے ملاقات ہو گئی، اپنے پیرومرشد صاحب کے مترجم قرآنِ کریم کے لیے وہ قرآنی فونٹ بنانا چاہتے تھے ،انہوں نے ہندی رسم کے مطابق مجھ سے قرآنی الفاظ کی کتابت کرائی تو میں نے بطور معاوضہ فونٹ سازی کی معلوماتـ اور ایک فونٹ ہی کا مطالبہ کیا۔ تاہم وہ لوگ صرف ان پیج کے فونٹ ری پلیس کرنے تک محدود تھے۔ کچھ پریکٹس کے بعد میں نے اپنے ہی تجربات شروع کر دیے۔ فور کریکٹر فونٹ ریپلیس کرنا تو ایک سادہ کام تھا، میں نے نوری کریکٹر کو ری پلیس کیا جو ایک اہم کامیابی کے باوجود بے مزہ ثابت ہوا کیونکہ لفظوں کی اونچ نیچ اور نقاط کی ایڈجسٹمنٹ ہمارے قابو میں نہیں تھی۔
عزیزم محمد ذیشان نصر اس دوران شاید ڈی کام کررہا تھا اور میرے کام میں دلچسپی لیتا تھا،وہ روز انٹر نیٹ پر کچھ نیا تلاش کر لیتا جس کو سامنے رکھ کر ہم باپ بیٹا نئے نئے آئیڈیاز ڈسکس کرتے اورپھر انہیں آزماتے ۔
ہم کئی سال تک انہی دریافتوں میں سرگرداں رہے اور دھیمے دھیمے کچھ ترقی بھی ہوتی رہی۔اس دوران ہم نے البتہ ایک انوکھا تجربہ کیا کہ انگلش فونٹ کی بیس پر قرآنی الفاظ رکھ کر خصوصی طریقے سے کریکٹرز کو کال کیا اور کورل ڈرا9 میں ٹائپ کر کے قرآنِ کریم مکمل کر لیا۔ یہ نسخہ چھپ چکا ہے۔
کارہائے نمایاں:
س کے علاوہ سیکڑوں کتب و رسائل کے ٹائٹلز اور اور سیکڑوں اشتہارات لکھے ، درجنوں مساجد کےلیے خطاطی کر چکا ہوں۔اب تک تقریبا قرآن کریم خطِ نسخ ہندی کے8 مختلف اداروں کے لیے کمپیوٹرائزڈ فونٹس تخلیق کر چکا ہوں ۔تقریبا 6 ہزار صفحات پر مشتمل تفسیر جواہر القرآن کی کتابت عرصہ چھ سال میں مکمل کی ، ابھی بھی اسـ کی تصحیح و ترتیبِ نو پر کمپیوٹرائزڈ کام جاری ہے۔
آئی ٹی یونورسٹی لاہور کے تعاون سے 2017 میں اپنی خطاطی پر مشتمل لاہوری نستعلیق کا واحد نمائندہ فونٹ مہر نستعلیق ویب کے نام سے افادۂ عام کےلیے مفت جاری کر چکے ہیں ۔ اس فونٹ کی پروگرامنگ عزیزم محمد ذیشان نصر نے کی ہے۔
اس کے علاوہ خطِ نستعلیق لاہوری ، دہلوی ، خطِ نستعلیق جلی و خفی کے متعدد فونٹس بنا چکے ہیں۔ جنہیں بہت جلد افادۂ عام کےلیے مناسب قیمت پر پیش کیا جائے گا۔
خطوط کی تفصیل:
خطِ نستعلیق لاہوری میں مہارتـ حاصل ہے جبکہ خطِ نسخ ہندی و پاکستانی ، خطِ ثلث و رقاع و دیوانی وغیرہ بھی لکھ لیتے ہیں ۔البتہ پسندیدہ خط خطِ نستعلیق لاہوری ہے۔ پسندیدہ خطاطین میں جناب عبدالمجید پرویں رقم ، حافظ محمد یوسف سدیدی ، سید انور حسین نفیس رقم رحمہم اللہ۔
انعاماتـ:
1996 میں خوشاب آرٹ سوسائٹی کی طرف سے منعقدہ نمائش میں دوسرا انعام ، پہلا انعام انیس شاہ صاحب کو ملا تھا ۔۔۔
1997میں بابر علی فاؤنڈیشن کی طرف سے حوصلہ افزائی کا انعام
دوسری بین الاقوامی نمائشِ خطاطی 1998 کیلیگرافرز اینڈ آرٹسس گلڈ کی طرف سے خط نستعلیق میں اول اور مجموعی طور پر تیسرا انعام حاصل کیا ۔
فنونِ لطیفہ سے لگاؤ:
شعرو شاعری ، ادب، شوقِ خطاطی ہی اوڑھنا بچھونا ہے ۔
پسندیدہ شاعر: میر و غالب ، علامہ اقبال ، فیض۔
پسندیدہ ادیب: مشتاق احمد یوسفی ، اشفاق احمد، قدرت اللہ شہابـ ۔
گائیک؟ غلام علی ، مہدی حسن
مستقبل کا خواب:
نصراللہ مہرصاحب کا مشن خطاطی بالخصوص خطِ نستعلیق کے تمام جید مرحوم اساتذہ کی روش کو ان کے خط کی تمام تر خوبیوں اور رعنائیوں کے ساتھ کمپیوٹر فونٹ کی صورتـ میں ڈھالنا ہے۔ اس لیے وہ دن رات خطِ نستعلیق کے گیسو سنوارنے میں مصروف رہتے ہیں اور اسـ مقصد کے حصول کے لیے قریباً پچھلے 20 سال سے ابـ مسلسل خطاطی کو دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کےلیے اپنے بیٹے عزیزم ذیشان نصر کے ساتھ مل کر خطاطی کے کمپیوٹرائزڈ فونٹس تیار کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور الحمد للہ اپنی اس کوشش میں سو فیصد کامیاب ہیں ، دورِ حاضر کے تمام جید خطاطین بالخصوص استاذ الخطاطین جنابـ محترم خالد جاوید یوسفی صاحب ، مکرمی جمیل حسن صاحب، محترم الہی بخش مطیع صاحب ، مکرمی محمد علی زاہد صاحب، وغیرہ نہ صرف والد صاحب کے کام کو پسند کرتے ہیں بلکہ ان کی کامیابی کےلیے خصوصی دعاؤں اور قیمتی مشورہ جاتـ سے بھی نوازتے ہیں۔
اسی سلسلے میں والد صاحب اورمیں (ذیشان نصر) نے مل کر ایک پرائیویٹ ادارے مہر ٹائپ کی بنیاد بھی رکھی ہے اور اب ان کا مشن تمام سینئر اساتذہ کے خطور کو کمپیوٹر پر محفوظ کرنا ہے۔ اس سلسلے میں بیک وقت تین بڑے اساتذہ کے خطوط کے فونٹس پر کام جاری ہے ۔ ان میں موجدِ طرزِ جدید جناب عبد المجید پرویں رقم کا جلی خط ، اور حافظ محمد یوسف سدیدی رحمۃ اللہ علیہ کا جلی خط اور سید انور حسین نفیس رقم کے جلی وخفی دونوں خطوط کے فونٹس پر کام جاری ہے ۔ ان فونٹس کے نمونے نیچے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ مکمل کرنے کے بعد انہیں بھی مہر ٹائپ کی طرف سے افادۂ عام کے لیے پیش کیا جائے گا۔
One Response
I was reading through some of your articles on this internet site and I conceive this site is rattling
instructive! Keep posting.Raise your business